آئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمان: 13 نشستوں والی جماعت حکومت اور تحریک انصاف کے لیے اتنی اہم کیوں؟

آئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمان: 13 نشستوں والی جماعت حکومت اور تحریک انصاف کے لیے اتنی اہم کیوں؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) جب بھی ملک کے کسی بھی حصے میں جلسوں یا احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتی ہے تو ہمیشہ ایک ترانہ سننے کو ملتا ہے: ’مولانا آ رہا ہے، مولانا آ رہا ہے۔‘

یہاں ’مولانا‘ سے مراد تنظیم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ اس ترانے اور مولانا فضل الرحمان کی اہمیت اس وقت دیکھنے میں آئی جب حکومت اور اپوزیشن اراکین کو مولانا فضل الرحمان کے گھر پر چکر لگتے دیکھا گیا۔

اتوار کے دن حکومت کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس اس لیےشروع نہ ہوسکا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومت کی حمایت کرنے کی حامی نہیں بھری تھی۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے اس ترمیم کی حمایت کی یقین دہانی نہ کروانے پر اتوار کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کا بھی انعقاد نہ ہوسکا۔

اس دوران حکمراں اتحاد، جس نے اپنے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہر حال میں پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی، کے اراکین تقریبا 14 گھنٹے پارلیمنٹ کے اندر ہی گھومتے رہے اور اپنی قیادت سے سوال کرتے رہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس کب شروع ہوگا؟ تاہم قومی اسمبلی کا اجلاس تلاوت کلام پاک کے بعد ختم کردیا گیا جبکہ سینٹ کا اجلاس ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ملتوی کردیا گیا۔

ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اچانک مولانا فضل الرحمان حکومت اور اپوزیشن کے لیے اتنے اہم کیوں ہو چکے ہیں اور مجوزہ آئینی ترامیم میں ان کا کیا کردار ہے؟

یاد رہے کہ حکومتی وزرا، بالخصوص وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ، میڈیا پر یہ دعوی کرتے سنائی دیے تھے کہ حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے ’نمبر‘ پورے ہیں اور حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔

آئینی ترامیم، مولانا فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان اہم کیوں؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قومی اسمبلی میں آٹھ جبکہ سینٹ میں پانچ اراکین ہیں۔ لیکن آئینی ترامیم نے پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھنے والی جماعت کو بڑی جماعتوں سے بھی زیادہ اہم بنا دیا ہے۔

حکمراں اتحاد کی کوشش تھی کہ انھیں اس آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت مل جائے، جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی چاہ رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان ان کے موقف کی حمایت کریں اور عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکے۔

حکمراں اتحاد اور پی ٹی آئی کے رہنما اتوار کو بار بار مولانا فضل الرحمان کے گھر پر ملاقاتوں کے لیے پہنچے اور اس دوران ان کی امامت میں نمازیں ادا کرنے کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کسی بھی جماعت کو اپنی حمایت کا یقین نہیں دلایا۔

جمعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت کا مقصد پارلیمنٹ کو خود مختار بنانا ہے اور ان کی جماعت طاقت پر نہیں بلکہ عوامی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جس طرح مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جماعت کو ابھی تک اس آئینی ترمیم کا مسودہ ہی نہیں ملا تو کیسے ان حالات میں، اس ترمیم کے مسودے کو دیکھے بغیر حکومت کو اس پر حمایت کا یقین دلاسکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت اس آئینی ترمیم کا مسودہ ملنے کے بعد اس پر غور کرکے اس پر اپنا موقف دے گی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کے اس بیان کے برعکس حکمراں اتحاد کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے اس مسودے کی کاپی مولانا فضل الرحمان کو دے دی ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے رات کو ایک بجے کے قریب پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ان کے ’پاس مسودے کی کاپی‘ آ گئی ہے۔

آئینی ترامیم، مولانا فضل الرحمان

’مولانا کوشش کریں گے کہ اپنی تمام باتیں منوا لیں‘

رواں برس عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ناراض نظر آئے۔ انھوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پارلیمنٹ کو بھی ’جعلی‘ قرار دیا۔

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو حکومت سازی کے وقت نظر انداز کیا اور مولانا اب اس بات کا ’انتقام‘ لے رہے ہیں۔

تجزیہ کار ضیغم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی سیاست میں’مولانا کی حیثیت بہت کم ہوئی ہے، خیبرپختونخوا میں مقبولیت بہت کم ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے حکمراں اتحاد نے مولانا فصل الرحمان کو حکومت بنانے کے بعد اہمیت نہیں دی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’حکومت بنانے کے لیے پی پی پی اور ن لیگ کے نمبر پورے تھے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہو تو دونوں جماعتیں اکیلے ہی حکومت چلا سکتی ہیں۔‘

’اب چونکہ انھیں آئینی ترامیم کے لیے مولانا فصل الرحمان کی ضرورت ہے تو حکمراں اتحاد کی جماعتیں ان کے پیچھے جا رہی ہیں ورنہ اس سے پہلے انھوں نے جمعیت علمائے اسلام کو کوئی لفٹ نہیں کروائی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مولانا فضل الرحمان جانتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اس کے بعد پھر حکومت کو کسی ترمیم کی ضرورت نہ پڑے اور اسی لیے وہ کوشش کریں گے کہ اپنی تمام باتیں منوالیں۔‘

ضیغم خان کا مزید کہنا تھا کہ ’مولانا صاحب حکمراں اتحاد کو شرمندہ کرسکیں گے وہ کریں گے کیونکہ ان جماعتوں نے انھیں شرمندہ کیا تھا اور نظرانداز کیا تھا۔‘

پاکستانی سیاست پر کڑی نگاہ رکھنے والے اینکرپرسن اور تجزیہ کار حامد میر بھی ضیغم خان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’مولانا فضل الرحمان کے ساتھ عام انتخابات میں زیادتی کی گئی تھی اور خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے تھے کہ وہ انتخابی جلسہ بھی نہ کر سکیں۔‘

انھوں نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکمراں اتحاد نے حکومت تشکیل دیتے وقت بھی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ انھیں بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ’مولانا فضل الرحمان کو پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس کے معاملے پر اختلاف ہے کیونکہ حکومت انھیں آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس مقرر کرنا چاہتی ہے۔‘

پارلیمانی نظام میں چھوٹی جماعتوں کی اہمیت

انتخابی اور پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں اتفاق رائے پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے اس آئینی ترمیم کو لانے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ اس آئینی ترمیم کے مسودے پر دیگر سیاسی جماعتوں کو پہلے اعتماد میں لیا جاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلا کر چھوٹی جماعتوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی کہ ان پر ان اجلاس کا دباؤ ہوگا اور وہ جلد ہی حکومت کی تجویز کا جواب دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو۔‘

احمد بلال کا کہنا تھا کہ ’پارلیمانی جمہوریت میں ایسے حالات میں جہاں حکومت کے پاس واضح اکثریت حاصل نہ ہو تو وہاں چھوٹی جماعتیں بہت زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ 1972 میں مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود کو خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) کا وزیر اعلی بنا دیا گیا تھا جبکہ ان کی جماعت صوبائی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت تھی۔

انھوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی بنا دیا گیا جبکہ اس جماعت کے پاس صرف 10 سیٹیں تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جمعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہے اور انھیں معلوم ہے کہ اگر وہ اس آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دیں گے تو یہ ترمیم منظور ہو جائے گی اور اگر ان کی جماعت پی ٹی آئی کے موقف کی حمایت کرے گی تو پھر حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے نام پر لائی جانے والی اس ترمیم کو منطور کروانا ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔‘

Share

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے