پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟

پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟

پاکستان کے پارلیمان میں ’آئینی پیکج‘ پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق مجوزہ قانون سازی کی ہر شق پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جاری مشاورتی عمل کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ تاہم حکمراں اتحاد میں شامل ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے۔

عطا اللہ تارڑ نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ ’وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل ہونے تک آئینی ترامیم پر آگے بڑھنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔‘

کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔

س کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی ازسرنو تشکیل بھی زیر غور ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر نے ان اصلاحات کو ’غیر آئینی ترمیم‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئینی پیکج کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی بھرپور مذمت کی جائے گی۔

قومی اسمبلی

آئینی ترمیم کے لیے درکار نمبر

پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔

اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔

ان نمبروں کو پورا کرنے کے لیے حکمراں اتحاد جمعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔

اگر مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیتی ہے تو پھر بھی حکومت کو تین سے چار ووٹ مزید درکار ہوں گے جن کے بارے میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے ارکان کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ابھی مطلوبہ نمبر پورے نہیں ہوئے، اس لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت بار بار تبدیل کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ

آئینی ترمیم میں کیا ہے اور حکومت کو اس کی ضرورت کیوں؟

وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون سازی ’وسیع ترعوامی مفاد میں کی جارہی ہے۔۔۔ آئینی ترمیم کا مقصد تیز اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’یہ تاثرغلط ہے کہ ترمیم کسی خاص شخصیت کے لیے ہے۔‘

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت جوڈیشل ریفارمز سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے۔

وفاقی وزیر قانون کے بقول ایسا اقدام عدلیہ میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ زیر التوا مقدمات فوری نمٹانے اور اعلی عدلیہ میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کی تعیناتی کا پیکج بھی شامل ہیں۔

تاحال سرکاری سطح رپر ان ترامیم کا مسودہ جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومتی ذرائع کی جانب سے بی بی سی کے ساتھ آئینی ترمیمی بِل کا مسودہ شیئر کیا گیا ہے جس میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل کی گئی ہیں۔

اس بِل میں آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی تجویر دی گئی ہے جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف کسی بھی قانون سازی یا بِل پر ووٹ دینے والے رُکن پارلیمان کا ووٹ گنتی میں شمار کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیشن تبدیل کرنے کی تجویز بھی لائی جا رہی ہے۔

آئینی بِل میں تجویز دی گئی ہے کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ پاکستان کریں گے۔

اس کے بعد مستقبل میں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے تین ججوں کے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینیئر ججوں کے نام چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن پہلے وزیرِ اعظم بھیجے گی۔

ججوں کی تقرری کے لیے بنائی گئی قومی اسمبلی کی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کے اراکین کی انتخاب قومی اسمبلی کا سپیکر پارلیمان پارٹی کی سیٹوں کی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔

اس کے علاوہ آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال تجویز کی گئی ہے اور اس عدالت کے جج کی تقرری تین سال کے لیے کی جائے گی۔

حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

ججز کی تعیناتی سے متعلق موجودہ سسٹم میں سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی منظوری دیتی ہے۔ تو اس کو حتمی منظوری کے لیے اعلی عدالتوں میں تعیناتی سے متعلق قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔

اس کمیٹی کے ارکان سے متعدد بار اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کردار ربڑ سٹمپ کے برابر ہے کیونکہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی شخص کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو انھیں تحریری طور پر کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی دینا ہوں گے۔

تاہم ان اعتراضات اور ثبوتوں کے بارے میں حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے تین نام بھیجے جائیں گے جن میں سے ایک جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا جائے گا جس کی معیاد تین سال رکھنے کی تجویز ہے۔

سپریم کورٹ نے وہاب الخیری کی درخواست پر جو فیصلہ دیا تھا اس کے مطابق سب سے سینیئر جج کو ہی ملک کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔

ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں اس کا مکمل طور پر اطلاق نہیں ہو رہا جس کی حالیہ مثال لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کی تعیناتی ہے۔ سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جج جسٹس عدلیہ نیلم کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا۔

آئینی ترمیمی بِل میں ہائی کورٹس سے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات واپس لینے اور ایک ہائی کورٹ کے جج کا دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ میثاق جمہوریت میں وعدہ کیا گیا تھا کہ انصاف کی فراہمی کو آسان بنایا جائے گا۔‘

تحریک انصاف

آئینی ترمیم کی مخالفت

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے ان ممکنہ اصلاحات کی بھرپور مخالفت کی ہے۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد میں شامل ارکان روزانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئینی ترمیم لے کر آ رہے ہیں لیکن پھر وہ اپنی اس بات سے مُکر جاتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ آئینی ترامیم لانے کا ماحول نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو اسمبلی متنازع ہو وہ کیسے آئینی اصلاحات کرسکتی ہے اور نہ ہی حکمراں اتحاد کے پاس آئینی ترامیم لانے کے لیے نمبر پورے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت تو کھل کر اس آئینی ترمیم کی مخالفت کرے گی اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے ارکان کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اس آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔

ان کے مطابق اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش تو آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ لاگو ہوگا جس کے تحت ایک تو ان کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے اور دوسرا یہ کہ ان کی پارلیمان کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے برعکس کوئی بھی رکن اگر پارلیمانی قانون سازی میں ووٹ دے گا تو نہ تو ان کا ووٹ شمار ہوگا بلکہ ان کی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔

اس عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جس کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن ابھی تک یہ اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔

حامد خان کے مطابق عمران خان جیل میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملک کے موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کرنے جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو وہ اپنی جماعت کو احتجاج کی کال دیں گے۔

ادھر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ آئینی ترامیم ’پرسن سپیفک لگتی ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ان ترامیم پر عملدرآمد اس آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں آنے والے ججز پر لاگو کرتی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ ایسے حالات میں یہ ترامیم متنازع ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ ملک کے حالات نارمل نہیں ہیں، اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی معاملہ اس طرف جائے گا کہ حکومت یہ ترامیم کسی فرد واحد کے لیے لے کر آرہی ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ حکومت کے بہت سے حساس معاملات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ایسے حالات میں آئینی پیکج لانے سے ملک میں حالات معمول پر آنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ وہ ’پرسن سپیسیفک‘ قانون سازی کے حق میں نہیں ہیں۔

Share

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے