’اب مجھے جانوروں کے علاج پر اتنا پیسہ نہیں خرچ کرنا پڑتا۔ پہلے میرے منافع کا بڑا حصہ اس میں لگ جاتا تھا۔ لیکن اب میرا منافع اور دودھ کی پیداوار پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔‘
شمالی انڈیا کی ریاست پنجاب کے شہر ترن تارن کے ہرپریت سنگھ نے مویشیوں کی افزائش اور دیکھ بھال کے لیے مصنوعی ذہانت سے حاصل ہونے والے نتائج کا استعمال کیا ہے۔
یہ مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کی ایک جھلک ہے۔
اس دوران گائے کی گردن یا ٹانگ پر بیلٹ نما اے آئی ڈیوائس نصب کر دی جاتی ہے۔ ہرپریت سنگھ کے مطابق اے آئی کے استعمال نے ان کی مالی حالت بہتر بنائی ہے۔
ان کے پاس 145 گائے ہیں اور ان کے فارم سے روزانہ ساڑھے بارہ سو کلو گرام دودھ حاصل ہوتا ہے۔ وہ گائے کی حرکات پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے نظر رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’گائے کو صحت مند رکھنا بہت اہم ہے اور اگر وہ اچھے ماحول میں ہوں تو دودھ کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے گائے کی بہتر دیکھ بھال ہوتی ہے۔ اس سے ہم ان کی صحت کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ان کا درجہ حرارت مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اس کی بدولت دودھ کی پیداوار 20 فیصد بڑھ گئی ہے۔‘
ہرپریت نے اب دودھ نکالنے کے لیے جدید مشین بھی نصب کر لی ہے جبکہ ایک الگ مشین جانوروں کے فضلے کو سنبھالنے کے لیے ہے۔

مصنوعی ذہانت سے ہرپریت اور ان کے مویشی کیسے مستفید ہوئے؟
اس تکنیک کے ذریعے ہرپریت کو معلوم ہوتا ہے کہ گائے کی افزائش کا کون سا وقت موزوں ہے، انھیں کب کھلانا ہے اور کب نہیں، ان کے اٹھنے بیٹھنے کا وقت اور طریقہ کیا ہونا چاہیے، کیا وہ ٹھیک سے چارہ کھا پا رہی ہیں اور کیا انھیں سردی یا گرمی لگ رہی ہے۔ اس تمام تر معلومات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
پھر مصنوعی ذہانت کے ذریعے رجحانات ترتیب دیے جاتے ہیں اور ہرپریت جیسے مویشی بان یہ جان پاتے ہیں کہ کس چیز میں رد و بدل کی ضرورت ہے۔ جانور کی روزانہ کی نقل و حرکت میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہرپریت بتاتے ہیں کہ قریب چھ ماہ قبل ایک یونیورسٹی کے ماہرین نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور ان کے 100 جانوروں پر ایسی ڈیوائسز نصب کیں۔
ہرپریت کا دعویٰ ہے کہ دودھ کی پیداوار بڑھنے کے علاوہ جانوروں کے علاج اور ادویات کے اخراجات کم ہوئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے موبائل پر نوٹیفیکیشن آتا ہے جب بھی گائے کی خوراک یا بیٹھنے کی عادات میں تبدیلی آتی ہے یا اس کا رویہ تبدیل ہوتا ہے۔‘
’نوٹیفیکیشن آنے کے بعد میں اس گائے پر خصوصی توجہ دیتا ہوں اور یقینی بناتا ہوں کہ وہ بیمار نہ پڑ جائے۔‘
’گذشتہ چھ ماہ سے علاج کا خرچہ کم ہوا ہے اور اب میری گائے بیمار نہیں ہوتی۔‘
’پہلے جب گائے بیمار ہوتی تھی تو مجھے دیر سے پتا چلتا تھا کیونکہ میں ہر گائے پر توجہ نہیں دے پاتا تھا۔ اب اے آئی کی مدد سے میں ہر گائے اور اس کی سرگرمیوں پر توجہ دے سکتا ہوں۔‘
’اس معلومات سے مویشیوں کو طبی معاونت دینے میں مدد ملتی ہے۔‘

دودھ دوہنے کا سٹیشن
مصنوعی ذہانت کے علاوہ ہرپریت ایک ڈیری پارلر کا بھی استعمال کر رہے ہیں جس کی مدد سے ان کے بقول ایک وقت میں چھ گائے کا دودھ دوہیا جا سکتا ہے۔ ’یہ دودھ بغیر انسانی مداخلت کے کنٹینر میں جاتا ہے اور وہاں سے کمپنی اسے ہم سے خرید لیتی ہے۔‘
گرو انگد دیو وٹنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے پرمندر چاولا بتاتے ہیں کہ اے آئی ڈیوائس کی مدد سے گائے کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سرگرمیوں میں تبدیلی سے ایک سگنل ملتا ہے۔
مثال کے طور پر ’اگر گائے روزانہ زیادہ چلنا شروع کر دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کنسیو کرنے کے لیے تیار ہے۔‘
’اگر اس کے چبانے کی حرکت میں کوئی تبدیلی ہے تو گائے کسی مسئلے سے دوچار ہے۔ اے آئی ہر قسم کے سگنل سے مویشی مالکان کو آگاہ کرتی ہے اور یوں گائے کو خصوصی توجہ مل پاتی ہے۔‘
وہ تجویز دیتے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کے پاس 50 سے زیادہ گائے ہیں، وہ ایسی ڈیوائسز استعمال کریں۔
ہرپریت سنگھ سوہل ان تین ترقی پسند کسانوں میں شامل ہیں جنھیں گرو انگد دیو وٹنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی نے غیر معمولی کارکردگی دکھانے یا جانور پالنے میں منفرد طریقے استعمال کرنے پر ’چیف منسٹر ایوارڈ‘ سے نوازا ہے۔
پنجاب کے دیگر کسانوں سے بھی ان طریقوں کو اپنانے کا کہا جا رہا ہے۔